تحریر: مولانا امداد علی گھلو
حوزہ نیوز ایجنسی| غاصب اسرائیل کے اندرونی حلقوں میں حزب اللہ کی طاقت کا اعتراف ایک اہم موڑ کی حیثیت رکھتا ہے، جو خطے کے بدلتے ہوئے سیاسی اور عسکری توازن کو آشکار کرتا ہے۔ سابق اسرائیلی وزیراعظم ایہود اولمرٹ اور میجر جنرل اسحاق بریگ کی جانب سے حزب اللہ کی قوّت کے بارے میں حالیہ بیانات نہ صرف اسرائیل کی عسکری حکمت عملی کی خامیوں کو ظاہر کرتے ہیں، بلکہ ایک غیر رسمی اعتراف بھی ہیں کہ حزب اللہ خطے میں اپنی طاقتور مقاومتی حیثیت کو مستحکم کر چکی ہے۔
ان بیانات میں اسرائیل کے لیے سنگین چیلنجز اور حزب اللہ کی جاری پیش رفت کا حوالہ دیا گیا ہے، جس کے اثرات تل ابیب تک محسوس کیے جا رہے ہیں۔
ایہود اولمرٹ کا یہ کہنا کہ حزب اللہ سے جاری تصادم اسرائیل کو بھاری قیمت چکانے پر مجبور کر رہا ہے، اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ یہ جنگ اب اسرائیل کے لیے ایک طویل اور کٹھن چیلنج بن چکی ہے۔ شمالی اسرائیل میں آبادی کے انخلاء کے بعد بھی، اسرائیل اس علاقے کو دوبارہ آباد کرنے میں ناکام رہا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عوام میں عدم تحفظ اور خوف گہرا ہوچکا ہے۔ اسرائیلی حکومت کی یہ عملی ناکامی ایک قومی مسئلہ بن چکا ہے اور عوامی اعتماد میں کمی پیدا کر رہا ہے۔
میجر جنرل اسحاق بریگ نے اسرائیلی عسکری حلقوں کو حزب اللہ کے مقابلے میں طویل مدتی جنگ کے خطرات سے آگاہ کرتے ہوئے حزب اللہ کی مزاحمتی قوّت کو تسلیم کیا ہے۔ بریگ کا یہ بیان کہ حزب اللہ تل ابیب تک رسائی حاصل کرچکا ہے، اسرائیل کی داخلی سلامتی کے لیے سنگین خطرے کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب حزب اللہ نے اپنی عسکری قوّت اور اسٹریٹیجک پیشرفت کے ذریعے نہ صرف اسرائیل کے شمالی علاقوں بلکہ بڑے شہروں تک اپنی دسترس بڑھا لی ہے، جو کہ اسرائیل کے لیے نہایت پریشان کن ہے۔
اسرائیلی قیادت کے ان بیانات کو سیاسی پس منظر میں دیکھنا ضروری ہے، کیونکہ یہ اعترافات حزب اللہ کی مسلسل بڑھتی ہوئی طاقت اور اسرائیل کی دفاعی اسٹریٹیجک کی ناکامی کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ حزب اللہ نے اسرائیل کو عسکری اور نفسیاتی محاذ پر جکڑ رکھا ہے، جس نے اسرائیل کی داخلی سیاست میں بھی ارتعاش پیدا کر دیا ہے۔ یہ صورتحال بین الاقوامی حلقوں کے لیے بھی ایک اہم پیغام ہے کہ خطے میں طاقت کا توازن اب یکطرفہ نہیں رہا بلکہ حزب اللہ کی موجودگی نے اسرائیل کی اسٹریٹیجک کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
بین الاقوامی سطح پر بھی حزب اللہ کی اس پیشرفت نے اسرائیل کے مستقبل کے حوالے سے سوالات اٹھا دیے ہیں۔ یہ تسلسل اسرائیل کو مجبور کرتا ہے کہ وہ لبنان کی جانب رخ کئے اپنے دستوں کی واپسی پر غور کرے، کیونکہ حزب اللہ کی مقاومت نے اسرائیل کی جنگی حکمت عملی کو بظاہر مفلوج کر دیا ہے۔ اسرائیلی قیادت کا یہ اعتراف کہ حزب اللہ کی پیشرفت تل ابیب تک پہنچ چکی ہے، بین الاقوامی برادری کے لیے ایک واضح پیغام ہے کہ خطے میں حزب اللہ کے طاقتور وجود کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں رہا۔
حزب اللہ کے مقابلے میں اسرائیل کی پسپائی کے اثرات اسرائیلی عوام پر گہرے ہوں گے، جو اب ایک ایسی حقیقت کا سامنا کر رہے ہیں جو کہ اسرائیل کی بقا کے لیے خطرناک بن چکی ہے اور اس حقیقت کا ادراک کرنا ہوگا کہ حزب اللہ کی مقاومت کو توڑنا آسان نہیں ہے۔
اس صورتحال میں، اسرائیل کے لیے چیلنجز صرف عسکری نہیں بلکہ سیاسی اور سماجی سطح پر بھی پیدا ہو چکے ہیں۔ حزب اللہ کی طاقت کے اعتراف نے اسرائیل کے داخلی ماحول میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ اسرائیل کی اعلیٰ قیادت، جو طویل عرصے سے طاقت کے ذریعے اپنے مخالفین کو دبانے کی پالیسی پر گامزن تھی، اب حزب اللہ کی غیر متزلزل مقاومت کے سامنے بے بس نظر آ رہی ہے۔ اسرائیل کی عوام اور سیاسی حلقوں میں یہ سوال اٹھنے لگا ہے کہ کیا مسلسل جنگی حکمت عملی واقعی ملک کی سلامتی کو یقینی بنا سکتی ہے، یا یہ بس ایک سراب ہے جو مزید عدم تحفظ کو جنم دے رہا ہے۔
علاوہ ازیں، اسرائیل کی جانب سے حزب اللہ کی طاقت کو تسلیم کرنا ایک بین الاقوامی پیغام بھی ہے کہ خطے کی طاقت کا توازن بدل چکا ہے۔ اسرائیل جو کبھی ناقابل تسخیر طاقت تصور کیا جاتا تھا، اب اپنی پوزیشن کا دفاع کرنے میں ناکام ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ حزب اللہ کے عسکری اور نفسیاتی حربوں نے نہ صرف اسرائیل کو دفاعی پوزیشن میں لا کھڑا کیا ہے بلکہ اسے عالمی سطح پر بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ صورتحال عرب دنیا اور دیگر علاقائی ممالک کے لیے ایک نیا حوصلہ فراہم کرتی ہے کہ اسرائیل کی طاقت کو چیلنج کرنا ممکن ہے۔